سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا۔
14مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا، فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا ہے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بتایا کہ فیصلہ 8/5 کے تناسب سے دیا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلہ دیا۔
جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں 17 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔
فیصلے میں تحریک انصاف کے قرار دیے گئے 39 ارکان اسمبلی کی فہرست شامل ہے، سپریم کورٹ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے 39 ارکان میں امجد علی خان ، سلیم رحمان، سہیل سلطان، بشیر خان جنید اکبر ، اسد قیصر ، شہرام ترکئی، انور تاج، فضل محمد خان ارباب عامر ایوب ، شاندانہ گلزار شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے اسامہ میلہ ،شفقت اعوان، علی افضل ساہی، خرم شہزاد ورک ، لطیف کھوسہ، رائے حسن نواز ، عامر ڈوگر ،زین قریشی ، رانا فراز نون، صابر قریشی، اویس حیدر جھکڑ، زرتاج گل کو بھی تحریک انصاف کے ارکان قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے علی محمد خان، شہریارآفریدی ،انیقہ مہدی، احسان اللہ ورک ، بلال اعجاز، عمیر خان نیازی، ثنا اللہ خان مستی خیل کو آزاد ارکان قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ کے مطابق پی ٹی آئی یا اس کے کسی رہنما نے آزاد رکن قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں کیا، تاہم اس حقیقت کے پیش نظر درخواستیں انتخابی کارروائی کا تسلسل ہے اس لیے عدالت کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دینے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے، آئین کا آرٹیکل 51(1)(ڈی) خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کا ضامن ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ کے مطابق جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لینے والے دن تک کوئی اور ڈیکلیریشن جمع نہیں کرایا کہ وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں، لہٰذا الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شامل کر کے مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی، آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے، سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی، آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ امیدوار جنہوں نے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے، پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں اور وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں انہوں نے عوام کی خواہش کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں، جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ میں بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں۔