گزشتہ روز لبنان میں کچھ پراسرار دھماکوں کی خبر آئی تو ابتدا میں اسے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری کشیدگی میں کوئی معمول کا واقعہ سمجھا گیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ حزب اللہ اراکین کے زیر استعمال کچھ وائرلیس ریڈیو سیٹس میں دھماکے ہوئے ہیں تو شک کسی مبینہ سائبر حملے پر گیا۔
کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر لبنان کے گلی کوچوں کی ویڈیوز سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ معاملہ کہیں زیادہ سنجیدہ ہے، ویڈیوز میں لبنان کی سڑکوں، بازاروں اور دکانوں میں لوگوں کو پر اسرار دھماکوں سے زخمی ہوتے اور تڑپتے دیکھا جاسکتا تھا۔
لبنان کے اسپتالوں کی ویڈیوز تو رونگٹے کھڑے کردینے والی تھیں، اب تک یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا تھا کہ اسپتالوں میں بستر کم پڑگئے اور زخمیوں کو اسپتال کے فرش پر ہی طبی امداد دی جارہی تھی۔
بعدازاں مقامی اور غیر ملکی میڈیا کی جانب سے بتایا گیا کہ لبنان میں رابطے کے لیے استعمال ہونے والے مخصوص پیجرز میں دھماکوں سے درجنوں حزب اللہ اراکین زخمی ہوئے ہیں۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کی تعداد درجنوں سے سیکڑوں اور پھر سیکڑوں سے ہزاروں میں پہنچ گئی۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پیجرز میں ہونے والے دھماکوں سے حزب اللہ اراکین سمیت 11 افراد جاں بحق اور 4 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، زخمیوں میں لبنان میں تعینات ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی بھی شامل ہیں۔
شامی مبصر ادارے برائے انسانی حقوق کی جانب سے بتایا گیا کہ حزب اللہ کے پیجر دھماکوں سے شام میں بھی 14 افراد زخمی ہوئے ہیں، شامی مبصر ادارے کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والوں کی شہریت کے بارے میں معلومات نہیں مل سکیں۔
ان دھماکوں کے بعد حزب اللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جن پیجرز میں دھماکے ہوئے انہیں چند ماہ قبل ہی خریدا گیا تھا اور اور انہیں حزب اراکین کے درمیان رابطوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، حزب اللہ نے ان دھماکوں کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے سرکاری سطح پر اس حوالے سے خاموشی اختیار کی گئی۔