پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والا احتجاج پرتشدد رخ اختیار کر گیا ہے اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان دو دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی جبکہ ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
اس وقت کئی شہروں سے احتجاجی مارچ دار الحکومت مظفرآباد کی جانب رواں ہے اور مظفرآباد سمیت کشمیر کے کئی شہروں میں انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر معطل کر دی گئی ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر 11 مئی کو احتجاج کیا جانا تھا جس سے پہلے ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے وفاقی حکومت سے ایف سی اور پنجاب کانسٹیبلری کے 1200 اہلکار طلب کیے تھے جن کا مقصد بظاہر انسٹالیشنز، ہائیڈل پراجیکٹس اور اسمبلی کی حفاظت کرنا تھا۔
اگرچہ احتجاج 11 مئی کو تھا لیکن ڈڈیال، میرپور میں ہونے والی گرفتاریوں کے ردِ عمل میں یہ احتجاج 10 مئی کو شروع ہو گیا۔ جس کے بعد دارالحکومت مظفرآباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں جس نے حالات کو مزید کشیدہ بنا دیا۔ درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور اس تصادم میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔